آ کےمیں تجھے پھر
روداد اپنے دل کی
سنانا چاہتی ہوں
اس خاموش دل کو
پھر ستانا چاہتی ہوں
یہی تو ہے دل کا مسلک
خود درد جھیلے
پہلے خود ٹھوکروں سے کھیلے
ہر خطا سے پہلے
ہر الزام سر اپنے لے لے
دنیا کی بے رخی نئی تو نہیں ہے
اے دل تو اسے بار بار جی لے
کے یہی ہے سفرآگہی کا
تو بس لبوں کو اپنے سی لے
کے یہ سبق تیرے لئے ہے
یہ باب تیرے لئے ہیں کھولے
انہی میں تجھے اب
سنائی دینگے اپنے نالے
عمر بھر کی اس تڑپ کو
تیرے اشک تنہا جھیلے
کوئی غم نہیں ہے
ایک اور غم تو پی لے
یہ عطیہ دوست کا ہے
تہ دل سے اس کو جی لے